Important Post

6/recent/ticker-posts

Hum nahi Jante Nazam // Bihar Board Class 12th Urdu

 

ہم نہیں جانتے

یوجینو مونتالے

Objective Question

                   1.        ہم نہیں جانتے کس کی نظم ہے؟

(A) یوجینو مونتالے                
(B) عمیق حقی

(C) ظفر کمالی                      
(
D) عطا کا کوئی

            2.      یوجینو مونتالے کی پیدائش کہاں ہوئی؟

(A) پیرس                       
(B) جنیوا

(C) روم                         
(
D) ان میں کوئی نہیں

            3.      یوجینو مونتالے نے اپنی عمر کا بڑا حصہ کہاں گزارا؟

(A) فلوریس                      
(B) کیلی فورنیا

(C) شکاگو                        
(
D) برلین

             4.      یوجینو مونتالے کی شاعری کا پہلا مجموعہ کب شائع ہوا؟

1913(A

1915(B

1914(C

1916(D

            5.     یوجینو موتنا لے کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے کس یونیورسٹی نے تو از ا؟

(A) آکسفورڈ یونیورسٹی              
(B) کیمبرج یونیورسٹی

(C) میونخ یونیورسٹی                
(
D) ان میں کوئی نہیں

            6.      یوجینو مونتالے کو ڈی لٹ کے اعزازی ڈگری سے کب نوازا گیا؟

1966(A

1965(B

1968(C

1967(D

            7.      زاہدہ زیدی کسی یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں؟

(A) علی گڑھ یونیورشی              
(3) جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی

(C) دہلی یورنیورسٹی                
(
D) عثمانیہ یونیورسٹی

            8.      زاہدہ زیدی کسی مضمون کی پروفیسر تھیں؟

(A) اردو                         
(
B) فارسی

(C) انگریزی                      
(D) عربی

            9.      و یوجینو مونتا لے کس زبان کے شاعر ہیں؟

(A) جرمن                                   
(C) اطالوی

(B) انگریزی                      
(
D) پرتگالی

            10.  ۔ نصاب میں شامل نظم ”ہم نہیں جانتے“ کا ترجمہ کس  زبان سے کیا گیا ہے؟

(A) انگریزی                      
(
B) فرینچ

(C) جرمن                                   
(D) اطالوی

        11. یوجینو مونتالے کسی صدی کا عظیم شاعر ہے؟ (

(A) اٹھارہویں صدی               
(
B) انیسویں صدی

(C) بیسویں صدی                 
(D) اکیسویں صدی

            12.   یوجینو مونتالے کی پیدائش کب ہوئی؟

1895ء)A(

1897ء)C(

1896ء)B(

1898ء)D(

            13.  ۔یوجینو مونتالے کی کون سی نظم آپکے نصاب میں شامل ہے؟

(A) ہم نہیں جانتے                 
(B) تم نہیں جانتے

(C) وہ نہیں جانتے                  
(
D) کوئی نہیں جانتے

            14.   نظم ہم نہیں جانتے کا اُردو ترجمہ کس نے کیا؟

(A) زاہدہ زیدی                   
(B) طاہرہ زیدی

(C) جیلانی بانو                     
(
D) خدیجہ مستور

            15. یوجینو مونتالے کو نوبل انعام سے کب نوازا گیا؟

1974(A

1976(A

1975(A

1977(A

Short Answer Type Question

۱۔یوجینو مونتالے کب پیدا ہوئے؟

جواب: یوجینو مونتالے 1896ء میں پیدا ہوئے۔

۲۔یوجینو مونتا لے کس زبان میں شاعری کرتے تھے؟

جواب: یوجینو مونتالے اطالوی زبان میں شاعری کرتے تھے۔

۳۔باب میں یوجینو مونتالے کی کون سی نظم شامل ہے؟ آپ کے نصاب میں یوج

جواب: ہمارے نصاب میں یوجینو مونتالے کی نظم ”ہم نہیں جانتے“ شامل ہے۔

۴۔نظم ہم نہیں جانے کا اردو ترجمہ کس نے کیا ہے؟

جواب: نظم ہم نہیں جا۔ انے کا اردو ترجمہ زاہد زیدی نے کیا ہے؟

۵۔یوجینو مونتالے کو نوبل انعام سے کب نوازا گیا؟

جواب: یوجینو مونتا لے کو نوبل انعام سے 1975ء میں نوازا گیا۔

۶۔جن سے تراشا گیا زندگی کا بدن کا یہ مصرعہ کیا نظم ہم نہیں جانتے'' سے ماخوذ ہے؟

 جواب: '' جن سے تراشا گیا زندگی کا بدن یہ مصرعہ نظم ہم نہیں جانتے'' سے ماخوذ ہے۔

۷۔ اس نظم میں کس کے آہنگ اور خاموش سرگرمی کو شاعر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے؟

جواب: اس نظم میں سمندر کے آہنگ اور خاموش سرگرمی کو شاعر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔

۸۔ مونتا لے اپنی نظم میں کس کی گونج نہاں خانہ دل میں باقی رہنے کی بات کرتا ہے؟

جواب: مونتالے اپنی نظم میں سمندر کی گونج کو نہاں خانہ دل میں باقی رہنے کی بات کرتا ہے۔

Long Answer Type Question

سوال۔نظم ہم نہیں جانتے میں شاعر نے کن خیالات کا اظہار کیا ہے؟

جواب: نظم ہم نہیں جانتے دراصل فکری اعتبار سے ایک اطالوی نظم ہے۔ یہ ایک جدید طرز کی نظم ہے۔ اس کے شاعر مونتائے ہیں۔ زاہدہ زیدی نے اس نظم کا اطالوی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ نظم تین حصوں پر کا ہے۔ مشتمل ہے۔ تینوں حصوں میں شاعر کے خیالات میں اتار چڑھاؤ آتا ہے۔

نظم کے پہلے حصہ میں شاعر ایک تہا انسان کی حیثیت میں نظر آتا ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں منتظر نظر آتا ہے۔ اپنے غیر ینی مستقبل کے بارے میں سوچ کر شاعر مایوس ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اسے اپنے آنے والے کل کے بارے میں اندیشہ ہے اور کہہ اٹھتا ہے ہم نہیں۔ جانتے اس ایک چھوٹے سے جملے سے شاعر نے کئی طرح کے التباس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس جملے کے ذریعہ زمانے کی فراتفری، پیچیدگی اور سائل کو بالواط طور پر شاعر نے پیش کر دیا ہے۔ ر نظم کے دوسرے حصہ میں شاعر کے اندر امید کی ایک کرن جاگتی ہے۔ اسے زندگی سے کچھ امید میں نظر آنے لگتی ہیں۔ اسے کچھ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ تنہائی میں جو باتیں سوچ رہا تھا وہ جو نہیں جانتا کہ مستقبل میں ایسا ہوگا کہ نہیں۔ اب شاعر اس سے الگ ہٹ کر سوچنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں اتنا معلوم ہے جس سے اس دوڑ جاتی ہے۔a

 

 


Post a Comment

0 Comments